پاکستان

ہم نے اپنی روایات کا پاس رکھتے ہوۓ وہ ہی کام کیا جو ہم پچھلے سات دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں

ہماری روایات

ہم نے اپنی روایات کا پاس رکھتے ہوۓ وہ ہی کام کیا جو ہم پچھلے سات دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں۔ مجھے یہ لکھتے ہوۓ بلکل شرم نہیں آرہی کہ ہم ایک نہایت بیواقوف کم عقل اور قند ذہن قوم ہیں۔ جن کی یاداشت جیلی فش سے بھی کم ہے ۔ ان سات دہائیوں میں کئی مرتبہ ایک ہی قسم کا طریقہ استعمال کر کہ اس قوم کے دماغوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن ہم بھول گئے یہ سب کھیل تو پہلے بھی کھیلا جا چکا اور کردار کافی حدتک وہی ہیں۔ مجھے امید تھی شاید یہ قوم جو سیاسی اور سماجی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ اپنی اس صلاحیتوں کو بروکار لاۓ گئ اور ہم ایک انقلاب کی طرف جائیں گے۔ جس کے بعد ایک عام پاکستانی کو ریاست پاکستان کے عمور میں کردار ادا کرتا دیکھو گا۔ لیکن یہ انقلاب مجھے اب دیوانہ کا خواب لگتا ہے۔

میرا اتنا لمبا مضمون باندھنے کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ جب آپ اس تحریر کو پڑھیں تو ایک بار لازمی سوچیں کہ ہم کیا کر سکتے تھے ہم نے کس راستے کا انتخاب کیا۔21 اکتوبر 2022 کو عمران خان کو الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد اس ملک کی سیاست نے کئی نے رخ لیے ملک ایک نامور پارٹی مسلم لیگ ن جس کو ان تمام معاملات میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہتہ کے ہم نے مسلم لیگ ن کا وہ وقت بھی دیکھا کہ ایک ایسی پارٹی جو تین دفعہ براۓ راست اس ملک کی وفاقی حکومت کو سنبھال چکی ہے وہ ختم ہونے کو ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا اس ملک میں نہ ہونا بھی ہے اور وجوہات میں پی ڈی ایم کی حکومت کی کارکردگی وغیرہ شامل ہے ۔لیکن 21 اکتوبر 2023 کو پاکستان کی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے ۔

کیا ہوا اس ایک سال میں کہ ایک ایسی پارٹی جو ختم ہونے کو تھی وہ ایک امید کی کرن بنتی ہوئی عوام کو نظر آرہی ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ کیسے اس کھیل کو خوبصورتی سے کھیلا گیا۔مسلم لیگ ن کے رہنما میاں محمد نواز شریف جو علاج کی غرض سے انگلستان گئے تھے جن کی پاکستان تشریف لانا ناممکن سا محسوس ہوتا تھا اس وجہ ان پر کیے گئے کیس تھے اس ایک سال میں ان کیس میں سے میاں صاحب کو رہائی دلائی گئی۔ ان کےسیاسی حریف عمران خان کو جیل میں رکھا گیا۔ ریاستی اداروں میں ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا جو شریف خاندان کے نوازے ہوۓ ہیں یا کسی بھی واسطہ سے شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سب میں ایک نام اس وقت اس سب منظر سے غائب ہے وہ آصف علی زرداری جو اپنی عادت کہ مطابق شکار کہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس طرح کی پلاننگ شریف خاندان کو لے کر پہلی بار نہیں دیکھنے کو ملی ہے۔2013 اور باقی ادوار میں کچھ نا کچھ اس طرح کا دیکھنے کو ملا تھا۔ کبھی میڈیا اور وکلاء کی آزادی کا نام استعمال کیا گیا اور اب کو نیا چورن بیچا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ صرف شریف خاندان کی سیاست کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسری جماعتوں کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ میں سیاسی پیشنگوئی کرنے والوں میں سے نہیں لیکن اب اتنا ضروری کہو گا کہ اس وقت جیل میں موجود خان صاحب کی واپسی پاکستانی سیاست کی تاریخ اور سب سے طاقتور واپسی ہوگی۔

عوام تب بھی سب حقائق دیکھتے ہوئے کم عقلی اور دماغ نہ استعمال کرنے کی وجہ سے غلط فیصلوں کے حق میں ہوگی ۔جس طرح آج عوام ایک کرپٹ انسان میں ملک کی بہتری دیکھ رہی ہے ۔ ایسا شخص جو تین دفعہ اقدار پر آیا لیکن پاکستان کی تعمیرو ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ بس تعمیر کی اوف شور کمپنیاں ملیں اور فلیٹس اور یہی طور طریقہ باقی سیاستدانوں کا بھی ہے.
محمد عبد الرحمن اعجاز

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button