پاکستان

نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ کرلیا گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مختصر حکم نامہ جلد جاری کریں گے۔
 
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ نیب ریفرنسز کی واپسی سے اندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے۔
 
نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے، مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پر آ چکا ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی اور دوسری جون میں آئی۔ مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟۔
 
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التوا مقدمات کو واپس کردیا گیا۔ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں ؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا۔ پہلے تحقیقات ہوں گی جن کے جائزے کے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں گے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ واپس ہونے والے فورمز کا مستقبل کسی کو معلوم نہیں۔ نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمز پر بھی جائیں گے ؟ کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کو بھجنے کا کوئی اختیار ہے ؟
 
خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں۔ مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں۔ جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔ دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس بارے میں ضرور پوچھیں گے۔
 
انہوں نے کہا کہ میرے 2 سوالات ہیں، سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کا مقصد بلاتفریق احتساب بتایا گیا۔ نیب قانون سے حاضر سروس فوجی افسر کو کیوں باہر رکھا گیا، اسفند یار ولی کیس میں صرف اتنا کہا گیا کہ آرمی میں سزاؤں کے لیے آرمی ایکٹ موجود ہے۔ اس طرح تو سول سرونٹس کے لیے سول سرونٹ ایکٹ موجود ہے، اسی طرح سیاست دانوں کے لیے الیکشن ایکٹ موجود ہے۔
 
درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے حاضر سروس فوجی افسر کو نیب قانون سے استثنا دینے کی شق پانچ ایم کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرا دوسرا سوال اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 209میں ایک جج کو عہدے سے ہٹانے کا پورا طریقہ کار طے شدہ ہے۔ اگر پیسے بنانے پر جوڈیشل کونسل ایک جج کو عہدے سے ہٹاتی ہے تو ریکوری کون کرے گا۔ ہم درخواست گزار کا کنڈکٹ نہیں دیکھ رہے، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں قانون سازی سے مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔
 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل اپنا تحریری جواب آج جمع کرائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتا دیتے ہم ریگولر بینچ چلا لیتے۔
 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ احتساب عدالتوں میں چلنے والے تمام مقدمات فریز کر دیے گئے ہیں۔ اربوں روپے کے کیسز فریز کرکے ہاتھ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ فریز کیے گئے ان کیسز سے ان لوگوں کا بھی حق متاثر ہوگا جن کے یہ پیسے ہیں۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدے داروں کے خلاف بھی موجود ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے کرپشن پر فوجداری سزا نہیں۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کرپٹ آرمی افسر کا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟۔ آرمی افسر فوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہو تو نیب قانون کی زد میں آتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استچنا نہیں ہے۔ آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے، ریکوری ممکن نہیں۔
 
خواجہ حارث نے کہا کہ جج برطرف ہو جائے تو نیب کو کارروئی کرنی چاہیے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذر ہوں، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیر قانونی منتقلی ہو تو کارروائی ہونی چاہیے۔ قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے۔ عوام کو خوشحال اور محفوظ بنایا ریاست کی ذمے داری ہے۔ نیب قانون میں یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی مقدمات کس فورم پر جائیں گے۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ہم قانون کے سقم کی نشاندہی کرکے معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج سکتے ہیں؟۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ بھیجنا، یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ بھیج دیں تو موجودہ قانون کا کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ ہے لیکن ہم اسے ہدایات نہیں دے سکتے۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو درخواست کر سکتے ہیں، اسے ہدایات نہیں دے سکتے۔ کوئی قانون بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی اثاثوں کا معاملہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتائیں حارث اسٹیل ملز کیس کیا تھا، وہ کرپشن کا کیس تھا، کیا حج کرپشن کیس آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت نہیں تھا۔ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے کی مثالیں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی قانون کا ماضی سے اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں، ہم ازخود نوٹس لینے کے اختیار کے استعمال میں لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک پارلیمنٹ کی قانون سازی کو دوسری پارلیمنٹ ہی ختم کر سکتی ہے۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔
 
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فوجی افسران سے متعلق نیب قانون کی توثیق سپریم کورٹ ماضی میں کر چکی ہے۔ ججز کے حوالے سے نیب قانون مکمل خاموش ہے۔ ریٹائرڈ ججز کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے کوئی فورم موجود نہیں۔ ججز ریٹائرمنٹ کے بعد 6 ماہ تک فیصلے تحریر کرتے رہتے ہیں۔ قانون سازوں کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونے دیں۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے نیب وکیل سے سوال کیا کہ ایک ریفرنس میں 50 ملین سے زائد کی رقم تھی وہ کیوں واپس بھجوایا گیا؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ترمیم کے بعد مالی فوائد کا پہلو نہیں تھا اس لیے ریفرنس واپس بھجوایا گیا۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ریفرنسز کیسے بنائے جاتے ہیں اس کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے تھا ۔ ہم فہرست دیکھ رہے ہیں ایک 10 ملین والے کو بھی رگڑ دیا گیا ۔ کیا اس فہرست میں کوئی 62(1)ایف یعنی تاحیات نااہلی کا بھی کوئی کیس بنتا ہے ؟۔ ہم فہرست دیکھ رہے ہیں راجا پرویز اشرف صاحب کا نام تاحیات نااہلی کے زمرے میں آتا ہے ۔
 
نیب وکیل نے کہا کہ 2021 میں یہ ترمیم ہوئی کہ جس کے تحت کہا گیا کہ جن ملزمان نے مالی فائدہ نہ لیا ہو ان کے خلاف ریفرنس نہ بنایا جائے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ایک فہرست فراہم کریں ایسے کتنے نیب ریفرنسز ہیں جو کسی عدالت میں نہیں بھیجے گئے۔
 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم آج ہی تحریری مؤقف سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں گے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے 2 سوالات کے جوابات بھی جمع کروائیں۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس ترمیم میں ایک نقص یہ بھی ہے کہ یہ صرف پیسے کی بات کرتی ہے اختیارات کے ناجائز استعمال کی بات نہیں کرتی۔ مجھے لگتا ہے کہ پشاور کی نیب عدالتوں کے پاس تو کوئی مقدمہ بچا ہی نہیں ہو گا۔
 
نیب وکیل نے کہا کہ کچھ مقدمات نیب کے پاس واپس بھی آئے ہیں۔ سال 2023 میں 212 جب کہ سال 2022 میں 336 ریفرنسز نیب کے پاس واپس آئے۔ نیب نے 2023 میں 30 جب کہ 2022 میں 24 ریفرنسز بینکنگ اور کسٹم عدالتوں کو منتقل کیے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کیسے بھجوا سکتے ہیں؟ ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں۔ نیب وکیل نےبتایا کہ 212 اور 336 ریفرنسز ہمارے پاس اسٹوریج میں چلے گئے، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ’’ویری گڈ‘‘۔
 
بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وقت کم ہے، امید ہے جلد شارٹ اینڈ سویٹ آرڈر جاری کردیں۔ مختصر حکمنامہ جاری کریں گے اور اس حوالے سے تاریخ کا جلد اعلان کریں گے۔

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button