پاکستانسیاست

آزادیٔ اظہار رائے کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: خاتون جج کے خلاف توہین آمیز بیان دینے پر عمران خان توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے، سخت سیکیورٹی پر عمران خان نے کہا کہ میری پیشی پر ایسے انتظامات کیے گئے ہیں کہ گویا کلبھوشن آرہا ہو۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف بیان پر توہین عدالت کی کارروائی کی جارہی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ ان کے خلاف سماعت کررہا ہے۔

بنچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بھی شامل ہیں۔ عمران خان بنچ کے روبرو پیش ہوگئے جہاں ان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوگئی۔

عدالت کے حکم پر عمران خان کے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور کہا کہ گزشتہ روز میں نے عدالت کی آبزرویشن کے مطابق جواب جمع کرادیا تھا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، 31 اگست کی سماعت کے دوران عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیسز کے حوالے دئیے تھے، میں عدالت کو بتاؤں گا کہ کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے، میں عمران خان کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا، فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین کا ذکر ہے، طلال چوہدری کیس کرمنل توہین عدالت نہیں تھی، کرمنل توہین عدالت سیریس نیچر کی ہے، کرمنل توہین عدالت میں آپ ارادے کا ذکر نہیں کرسکتے، گزشتہ سماعت پر بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ کرمنل توہین عدالت ہے، آپ نے زیر التوا مقدمہ سے متعلق بات کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا جواب ہم نے تفصیلی پڑھا ہے، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بونڈ ہیں۔

اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم یہ معاملہ کلوز کرنا چاہتے ہیں، ہم نے نہایت احترام کے ساتھ گزارشات پیش کر دی ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کریمنل contempt میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا یہ مقصد تھا۔

جیل جاکر اور خطرناک ہوجاؤں گا، عمران خان

پیشی سے قبل راستے میں صحافی میں سوال کیا کہ خبریں آرہی ہیں کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ ایسی خبریں آتی رہتی ہیں، میں جیل جا کر زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشں یادیو آرہا ہے، عمران خان

سخت سیکیورٹی سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشں یادیو آرہا ہے، پتا نہیں انہیں کس چیز کا خوف ہے، بعد میں بات کریں گے کہیں کوئی غلط ٹکرز نہ چل جائے۔

سیکیورٹی کے سخت اتنظامات

عمران خان کی پیشی کے موقع پر آج کی سماعت کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کیے گئے، کمرہ عدالت میں وکلا سمیت کورٹ رپورٹرز کا داخلہ رجسٹرار آفس کے پاسز سے مشروط ہے۔

عمران خان کی پیشی پر کاروبار بند

عمران خان کی پیشی کے موقع پر شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پولیس نے راستے میں کاروبار بند کرادیا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نوٹس لیتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کا حکم دے دیا۔ سیکیورٹی اور جیمرز کی وجہ سے ہائی کورٹ اور اطراف میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہوگئی۔

چیف جسٹس کا نوٹس، کاروباری مراکز کھولنے کا حکم

چیف جسٹس نے رجسٹرار ہائیکورٹ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے۔

دریں اثنا شوکاز نوٹس ملنے پر عمران خان نے گزشتہ روز دوسرا تحریری جواب جمع کرادیا تھا جس میں عمران خان نے جج سے متعلق کہے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔

عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے جنہیں کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ رہنما مراد سعید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم ہائی کورٹ نہیں جا رہے بس اپنے لیڈر کو سپورٹ کرنے آئے ہیں، انہوں نے ادھر کرفیو لگایا ہوا ہے، ہماری اوپر امپورٹد حکومت مسلط ہے۔

مراد سعید نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی قیادت پر ایف آئی آرز درج کروا دیں، صحافیوں کو چپ کروا دیا، یوٹیوب بند کرادی، میڈیا کا بلیک آؤٹ کرکے آپ اپنا مذاق بنارہے ہیں، ہم جب بھی پولیس سے سوال کرتے ہیں یہ کہتے ہیں ہمیں اوپر سے آرڈر آیا ہے اور اسی طرح میڈیا والے بھی یہی کہتے ہیں۔

 

متعلقہ پوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button